واشنگٹن:حماس کی طرف سے 200 فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں چار اسرائیلی خواتین فوجیوں کو رہا کرنے کے بعد امریکی انتظامیہ نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا مسلسل نفاذ “نازک” ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ “یہ انتہائی اہم ہے کہ جنگ بندی پر عمل درآمد جاری رہے اور حماس کے زیر حراست تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے اور ان کے اہل خانہ کو بحفاظت واپس کیا جائے”۔
امریکی محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاؤس کے بیانات نے اسرائیلی خواتین فوجیوں کی رہائی کا خیرمقدم کیا لیکن اسرائیل کی طرف سے رہا کیے گئے فلسطینی قیدیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
محکمہ خارجہ نے مزید کہا کہ “امریکہ 477 دنوں کی حراست کے بعد چار اسرائیلی خواتین قیدیوں کی رہائی کا جشن منا رہا ہے”۔
غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا معاہدہ 20 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف برداری سے ایک روز قبل گذشتہ ہفتے کے اوائل میں نافذ ہوا تھا۔
ٹرمپ نے امریکہ مصر اور قطر کی ثالثی میں کئی مہینوں کی بات چیت کے بعد جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے پر اپنے مشرق وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وِٹکوف کی تعریف کی۔
ٹرمپ نے اپنے افتتاح سے قبل خبردار کیا تھا کہ اگر غزہ میں حماس کے قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو “جہنم کے دروازے کھل جائیں گے”۔
حماس نے سات اکتوبر 2023 کے دوران تقریباً 250 افراد کو قید کیا تھا۔جنوبی اسرائیل کے قصبوں پر اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد غزہ پر ایک خوفناک جنگ کا آغاز ہوا تھا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غزہ پر اسرائیلی جنگ میں 47000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ان ہلاکتوں کی وجہ سے اسرائیل پر نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات لگے۔