![](https://www.haqnewsindia.com/wp-content/uploads/2025/02/daud.jpg)
ترکیہ:غزہ کی پٹی کے بارے میں گذشتہ چند دنوں اور گھنٹوں کے دوران پے در پے بیانات سامنے آ رہے ہیں، ایک نازک جنگ بندی معاہدہ جو کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتا ہے کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے متنازعہ منصوبہ بھی پیش کیا گیا ہے جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اس منصوبے میں غزہ کی پٹی کے لوگوں کی نقل مکانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اسی اثناء میں ترکیہ میں حزب اختلاف کی “فیوچر پارٹی” کے سربراہ سابق ترک وزیر اعظم اور وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو نے ایک متنازعہ بیان دے کر سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی۔
نیو پاتھ پارٹی کے پارلیمانی بلاک کے اجلاس سے خطاب میں داؤد اوگلو نے غزہ کی پٹی کو ایک خودمختار علاقے کے طور پر جمہوریہ ترکیہ سے دوبارہ جوڑنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جرات مندانہ بیان دیا۔
ترک میڈیا کی رپورٹ کے مطابق داؤد اوگلو نے اس بات پر زور دیا کہ ترک جمہوریہ سلطنت عثمانیہ کے آئینی توسیع کی نمائندگی کرتا ہے۔ غزہ کے لوگ “کامریڈ اور فطری شہری” ہیں جن کی ترکیہ کے ساتھ مشترکہ تاریخ ہے۔
حزب اختلاف کی فیوچر پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ “غزہ کے عوام کو ایک خودمختار علاقے کے طور پر ترک جمہوریہ سے منسلک ہونے کے لیے ایک عام ریفرنڈم کرانا چاہیے، جب تک کہ فلسطین کی ریاست قائم نہیں ہو جاتی انہیں فیصلے کا اختیار دینا چاہیے”۔
داؤد اوگلو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو خریدنے یا اس کی ملکیت کے بارے میں بیانات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ 309 مربع کلومیٹر کے کل رقبے کے ساتھ یہ پٹی نہیں چاہتے بلکہ قبرص اور مصر کے درمیان “سمندر کے نظارے” والے علاقے کے حصول میں دلچسپی رکھتےہیں، کیاں کہ یہاں قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں‘‘۔
داؤد اوگلو نے عثمانی میراث پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سلطنت عثمانیہ برطانوی مینڈیٹ سے پہلے غزہ پر حکمرانی کرنے والی آخری آئینی ریاست تھی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ “فلسطینی اب بھی اپنے ضمیر اور تاریخ میں عثمانی شناخت کو برقرار رکھتے ہیں”۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ترکیہ سلطنت عثمانیہ کے جائز وارث کے طور پر فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی خودمختاری کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔
اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم کے ساتھ ملاقات کے موقع پر منگل امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ غزہ کا انتظام سلامتی اور استحکام میں امریکہ کے اختیار میں لانے کی کوشش کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پٹی کے باشندوں کے حوالے سے مصر کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنے کے یقینی امکانات ہیں۔
ٹرمپ نے غزہ کو خریدنے کے خیال کی بھی تردید کی تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا منصوبہ پٹی میں امن لائے گا اور وسیع اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کرے گا۔
تاہم مصر اور اردن نے امریکی صدر کے غزہ سے متعلق منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔