Thursday, February 13, 2025
Homeہندوستانجمعیۃ علماء ہند یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے فیصلے کے خلاف...

جمعیۃ علماء ہند یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے فیصلے کے خلاف عدالت پہنچی

نئی دہلی:اترا کھنڈمیں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے خلاف، صدر جمعیۃ علماء مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہنداتراکھنڈ نے نینی تال ہائی کورٹ میں آج ایک پٹیشن داخل کی اور چیف جسٹس کے سامنے مینشن بھی کیا اوراس پر اسی ہفتے عدالت میں سماعت متوقع ہے جمعیۃ علما ہند کی جاری ریلیز کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے اس اہم مقدمے کی پیروی سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کریں گے۔
مولانا مدنی نے اس پٹیشن پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے آئین اور جمہوریت اور قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے جمعیۃ علماء ہند نے عدالت کا رخ اس امید کے ساتھ کیا ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا۔کیوں کہ ہمارے لئے آخری سہارا عدالتیں ہی رہ جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی قانون منظور نہیں جو شریعت کے خلاف ہو، مسلمان ہر چیز سے سمجھوتہ کرسکتا ہے لیکن اپنی شریعت اور مذہب سے ہر گز ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا ہے۔یہ مسلمانوں کے وجود کا نہیں بلکہ ان کے حقوق کا سوال ہے۔موجودہ حکومت یکساں سول کوڈ ایکٹ لاکر مسلمانوں سے وہ حقوق چھین لینا چاہتی ہے جو اسے ملک کے آئین نے دیئے ہیں۔کیوں کہ ہمارے عقیدے کے مطابق جو ہمارے عائلی قوانین ہیں وہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین نہیں ہیں وہ قرآن مجید اور احادیث سے ماخوذ ہیں انہوں نے سوال اٹھا کہ جو لوگ کسی مذہبی پرسنل لا پر عمل نہیں کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ملک میں پہلے ہی سے ایک اختیاری سول کوڈ موجود ہے تو پھر یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت کیوں ہے؟اورپھر یہ کہ یکساں سول کوڈکا نفاذآئین میں شہریوں کودیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولرآئین کو اپنی حالت میں باقی رکھنے کاہے، کیونکہ ہندوستان ایک سیکولرملک ہے اوردستورمیں سیکولرازم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کی حکومت کااپنا کوئی مذہب نہیں ہے اور ملک کے عوام اپنے مذہبی معاملات میں آزاد ہیں، اس لئے یکساں سول کوڈمسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے، اورملک کی یکجہتی اورسالمیت کے لئے بھی نقصاندہ ہے۔
انہوں نے آگے کہا کہ یکساں سول کوڈکے نفاذکے لئے، دفعہ 44 کو ثبوت کے طور پر پیش کیاجاتا ہے اوریہ پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ یکساں سول کوڈکی بات توآئین میں کہی گئی ہے جبکہ دفعہ 44رہنمااصول میں نہیں ہے، بلکہ ایک مشورہ ہے، دوسری طرف آئین کی ہی دفعہ 25، 26 اور 29 کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، اور مسلم پرسنل لا ء کو شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 کے ذریعہ بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ یوں بھی کسی ریاست کو یو سی سی بنانے کا اختیار نہیں ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو یکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے، اس کے باوجود ہماری حکومت کہتی ہے کہ ایک ملک ایک قانون ہوگا اور یہ کہ ایک گھر میں دو قانون نہیں ہو سکتا، یہ عجیب وغریب بات ہے۔
مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ آئی پی سی،سی پی سی کی دفعات بھی پورے ملک میں یکساں نہیں ہیں، ریاستوں میں اس کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے،یہاں تک کہ ملک میں گؤکشی کا قانون بھی ایک نہیں ہے جو قانون ہے وہ پانچ ریاستوں میں نافذ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد جب جب فرقہ پرستوں کی جانب سے شریعت میں مداخلت کی کوشش ہوئی ہے۔ جمعیۃعلماء ہند نے پوری قوت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا ہے ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حکومت ہند کو شریعت کے تعلق سے قانون سازی کی ضرورت محسوس ہوئی تو جمعیۃعلماء ہندکی رہنمائی کے بغیر وہ قانون پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ جیسا کہ شریعت ایکٹ اور انفساخ نکاح۔ قوانین ہند میں دوا یکٹ ایسے ہیں جن میں جمعیۃعلماء ہند کا نام اور اس کی کوششوں کا تذکرہ ہے۔چنانچہ قوانین ہند کے ریکارڈ میں شریعت بل کے نفاذ سے متعلق جمعیۃعلماء ہندکا ان الفاظ میں ذکر ہے:شریعت بل 1937 سے پہلے روایتی قوانین رائج تھے، ان کی جگہ شریعت بل کے نفاذ کے سلسلہ میں جمعیۃعلماء ہند نے پر زور مطالبہ کیا جو کہ مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے اورجمعیۃعلماء ہندکے ہی مطالبہ پر شریعت بل 1937 پاس کیا گیا۔)
مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان کے دستور میں جمعیۃ علماء ہند کے سوا کسی دوسری جماعت کا ذکر نہیں ہے، جو لوگ دستور میں کہی گئی باتوں کی اہمیت کو نہیں جانتے آج اپنی طرف سے جو چاہتے ہیں تشریح کرجاتے ہیں۔چنانچہ یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتاہے کہ یکساں سول کوڈکا نفاذ شہریوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں نت نئے جذباتی اورمذہبی مسائل کھڑے کرکے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مسلسل خوف اورانتشارمیں مبتلارکھنا چاہتی ہیں اور ملک کی آئین کو آگ لگانا چاہتی ہیں لیکن مسلمانوں کو کسی بھی طرح کے خوف اورانتشارمیں مبتلانہیں ہوناچاہئے، ملک میں جب تک انصاف پسند لوگ باقی ہیں ان کو ساتھ لیکر جمعیۃعلماء ہند ان طاقتوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گی، جو ملک کے اتحاداورسالمیت کے لئے نہ صرف ایک بڑاخطرہ ہیں بلکہ سماج کو تعصب کی بنیادپر تقسیم کرنے کے درپے ہیں، انہوں نے اخیرمیں کہا کہ اس ملک کے خمیرمیں ہزاروں برس سے نفرت نہیں محبت شامل ہے کچھ عرصہ کے لئے نفرت کو کامیاب ضرورکہا جاسکتاہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ آخری اورحتمی فتح محبت کی ہونی ہے۔

RELATED ARTICLES
- Advertisment -
Google search engine

Most Popular

Recent Comments