Monday, February 24, 2025
Homeہندوستانیکساں سول کوڈکا نفاذ ریاستی حکومت کے دائرہ اختیارمیں نہیں: مولانا ارشدمدنی

یکساں سول کوڈکا نفاذ ریاستی حکومت کے دائرہ اختیارمیں نہیں: مولانا ارشدمدنی

نئی دہلی: اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے داخل کی گئی اہم پٹیشن میں آج سینئرایڈوکیٹ کپل سبل اوروکیل آن ریکارڈفضیل احمد ایوبی اتراکھنڈہائی کورٹ کی اس خصوصی بینچ کے سامنے پیش ہوئے جو چیف جسٹس جی نریندر اور جسٹس آلوک مہراپرمشتمل ہے۔ کپل سبل نے بینچ کے سامنے دواہم باتیں رکھیں، پہلی یہ کہ لسٹ تھری انٹری 5 کے تحت کسی صوبائی حکومت کویکساں سول کوڈبنانے اوراسے نافذ کرنے کا کوئی اختیارنہیں ہے یہاں تک کہ دفعہ 44 بھی کسی صوبائی حکومت کواس طرح کی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتی۔ کپل سبل نے دوسری بنیادی بات یہ کہی کہ جوقانون لایا گیا ہے، اس سے شہریوں کے ان بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہوتی ہے، جوانہیں آئین کی دفعہ 14۔19۔21 اور25 میں دیئے گئے ہیں۔
کپل سبل نے عدالت سے یکساں سول کوڈ پراسٹے لگانے کی درخواست کی اتراکھنڈ حکومت کے وکیل نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کے لئے وقت طلب کیا۔ اس پرعدالت نے صوبائی حکومت کوایک نوٹس جاری کرکے اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی، آئندہ سماعت یکم اپریل 2025کوہوگی۔ کپل سبل نے چیف جسٹس سے یہ بھی کہا کہ آئندہ تاریخ پرہم اسٹے پرہی بحث کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چونکہ یکساں سول کوڈکی بعض دفعات میں سزااورجرمانے کا بھی التزام ہے اس لئے اس پر اسٹے لگناضروری ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگراس مدت کے دوران اس طرح کاکوئی معاملہ پیش آتاہے توہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ فوری طورپراسے عدالت کے علم میں لائیں، بینچ نے یہ بھی کہا کہ اگراس قانون سے کوئی انفرادی طورپرمتاثرہوتا ہے یااس قانون کے تحت کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تووہ بینچ سے رجوع کرسکتا ہے۔
قابل ذکرہے کہ اتراکھنڈ اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کی منظوری کے تقریباً ایک سال بعد گزشتہ 27 جنوری 2025 کووزیراعظم نریندر مودی کی موجودگی میں باضابطہ طورپرنافذ کردیا گیا۔ اس طرح اتراکھنڈ یکساں سول نافذ کرنے والی ملک کی پہلی ریاست بن گئی۔ مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر جمعیۃعلماء ہند نے اس قانون کواتراکھنڈہائی کورٹ میں چیلنچ کیا ہے، جس پرآج ابتدائی سماعت ہوئی۔ آج کی قانونی پیش رفت پراپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں ایک سیکولرآئین کے موجودرہتے ہوئے جس طرح یہ قانون لایا گیا وہ جانبداری، امتیازاورتعصب کا مظہرہے ہی نہیں آئین کی بعض دفعات کا حوالہ دے کرجس طرح قبائل کواس قانون سے الگ رکھا گیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی سماجی اورمذہبی شناخت کو مجروح اورختم کرنے کی غرض سے ہی یہ قانون وضع کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین نے اقلیتوں کو بھی خصوصی اختیارات دیئے ہیں مگر ان کا لحاظ نہیں رکھا گیا، یہی نہیں عام شہریوں کو بھی آئین میں بنیادی حقوق فراہم کئے گئے ہیں، چنانچہ یہ قانون شہریوں کے بنیادی حقوق کی نفی کرتاہے۔ مولانا مدنی نے آگے کہا کہ آج کی ابتدائی سماعت میں ہمارے وکیل کی جانب سے اس نقطہ کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے امید افزابات یہ ہے کہ کچھ انصاف پسند غیرمسلموں نے بھی اس کے خلاف عرضیاں داخل کی ہیں جس میں انہوں نے بھی امتیاز، تعصب اوربنیادی حقوق کا معاملہ اٹھایاہے ، اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ یکم اپریل کواس پرنہ صرف ایک مثبت بحث ہوگی بلکہ عدالت اس پر اسٹے لگادے گی چونکہ اس طرح کے قانون سے آئین کی بالادستی ہی نہیں مجروح ہوئی ہے بلکہ شہریوں کے آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق پر بھی گہری ضرب لگی ہے۔

RELATED ARTICLES
- Advertisment -
Google search engine

Most Popular

Recent Comments