
نئی دہلی :’نئے پرانے چراغ ‘‘کے تیسرے دن’’تنقیدی و تحقیقی اجلاس‘‘ کا آغازپروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین اور پروفیسر محمد کاظم کی صدارت میںہوا جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر نوشادمنظر نے بہ حسن و خوبی انجام دیے اس اجلاس میں دہلی کی تینوں یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز نے اپنے تحقیقی موضوعات پر مقالات پیش کیے جن میں ہما خانم (دہلی یونیورسٹی)’’ناول’’مائی‘‘عورتوں کے معاشرتی تشخص کا استعاراتی بیانیہ‘‘،سفر نقوی (دہلی یونیورسٹی)’’انیس اشفاق کے کی انیس شناسی :دریا کے رنگ کے حوالے سے‘‘عبد الرحمان (جامعہ ملیہ اسلامیہ)’’منیب الرحمان کی نظم نگاری کا جائزہ‘‘،حرا قمر (دہلی یونیورسٹی)’’کاغذی ہے پیراہن اور نفسیاتی کشمکش‘‘،امام الدین امام(دہلی یونیورسٹی)’’عروضی مباحث:ایک جائزہ‘‘،محمد ثامر رضا (جامعہ ملیہ اسلامیہ)’’قصہ مہر افروز ودلبر :کہانی،کردار اور اسلوب کا تجزیہ‘‘عظمیٰ رضوان (دہلی یونیورسٹی)’’افسانہ نگار:سرلا دیوی :تعارف نہ کہ تنقید‘‘ ،ساجد انصاری(جامعہ ملیہ اسلامیہ) ملاوجہی کے بعد دکن میں ادبی نثر کا خلا:اسباب وعوامل‘‘،شہلا کلیم(جواہر لعل نہرو یونیورسٹی) ’’باصر سلطان کاظمی کی شعری کائنات :ایک جائزہ‘‘ کے نام شامل ہیں۔
پروفیسر محمد کاظم نے تمام مقالہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ مقالے کی زبان تحریری نہیں بلکہ پیش کش کی زبان ہونی چاہیے ۔انھوں نے مزید کہا کہ مقالہ پیش کرتے وقت اس کے اوصاف ہی نہیں بلکہ کمیوں کا بھی بیان ہونا چاہیے،ایک مقالہ نگار کو جج کا کردار پیش کرنا چاہیے۔مقالے کی زبان گفتگو اور عام بول چال کی زبان ہونی چاہیے تاکہ مقالے سامعین اور حاضرین کو جوڑے رکھیں۔
اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے تمام مقالہ نگاران کو بہترین مقالے پیش کرنے پر مبارک باد پیش کی ۔انھوں نے مزید کہاکہ مقالہ خوانی کا انداز عام گفتگو جیسا ہونا چاہیے ۔روانی ہو مگر اس میں ٹھیراؤ بھی ہوجس سے بات واضح ہوجائے اور سامعین تک ترسیل کا فریضہ ادا ہوسکے۔انھوں نے مزید کہا کہ مقالوں میں اقتباسات ضرورت کے مطابق ہی ہونے چاہئیں ۔
ظہرانے کے بعد تخلیقی اجلاس کا آغاز ہوا جس کی صدارت ڈاکٹرنعیمہ جعفری پاشا اور سینئر صحافی سہیل انجم نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر شاداب شمیم نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں کل11 تخلیقات پیش کی گئیں جن میںڈاکٹر رخشندہ روحی مہدی (کہاں ہے منزل راہِ تمنا )،ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی (لاحول) ،ڈاکٹر ناظمہ جبیں (تشنہ منزلیں)،چشمہ فاروقی (مس پرفیکٹ)،مینا خان (سلاخیں زندگی کی)،ڈاکٹر طاہرہ منظور (داستان )،شفا فاروقی(ایک خواب دو حقیقتیں)،غزالہ پروین (وفا جن سے کی)، ڈاکٹر ثمر جہاں(شکست)،ڈاکٹر توصیف خاں(یارِ طرح دار کی شخصیت: انشائیہ)،نازیہ دانش(فریب چہرے) کے نام شامل ہیں۔
اس موقع پر صدارتی تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشانے کہا کہ اردو کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔انھوں نے تمام تخلیق کاروں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا میری آپ سب سے گزارش ہے کہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ اردو رسم الخط کی بھی حفاظت کریں ،یہی ارد و کی حفاظت اور تابناکی کی علامت ہے۔انھوں نے مزید کہاکہ مکالموں کی ادائیگی تخلیق کار کی فنی خوبیوں کو بیان کرتی ہے۔
اجلاس کے دوسرے صدر سینئر صحافی سہیل انجم نے فرداً فرداً تمام تخلیق کاروں کو مبارک باد پیش کی۔اپنے صدارتی خطبے میں انھوں نے کہا کہ اردو اکادمی نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے یہ شاندار پلیٹ فارم مہیا کیا ہے،اس کی دنیا بھر میں کہیں نظیر نہیں ۔انھوں نے مزید کہا کہ خوش آیند بات یہ ہے کہ ’نئے پرانے چراغ‘کے اس ادبی اجتماع میں تقریباً پانچ سو قلمکار شرکت کررہے ہیں ۔انھوں نے مزید کہاکہ افسانے پر اظہار خیال کرنا دراصل نقاد کا کام ہے تاہم کچھ تجربے کی باتیں بتاؤں تو اتنا کہوںگا کہ تجسس کی انتہا ہی افسانے کی اصل معراج ہے،لہٰذا جو کچھ کہا جائے اس میں تجسس اور سریت کا عنصر ہونا چاہیے۔